عدالت کا فیصلہ چار تین کا تھا بغیر حکم کے الیکشن کمیشن نے عمل کیسے کر لیا

الیکشن پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت عدلیہ نے حکومت کی چالبازی پکڑ لی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ فیصلہ 4،3 سے ہی آیا تھا جب کہ عدالت کا کوئی آرڈر ہی اس میں موجود ہی نہیں تھا بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن نے اس پر عمل کیسے کرلیا۔
سپریم کورٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت جاری ہے جب کہ اس کیس کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے اس بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال، چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس اعجازالاحسن، اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس جمال مندوخیل نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن میں تاخیر پر فیصلہ چار سے آیا تھا تین سے نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آج تک جسٹس آف پاکستان نے آرڈرآف کورٹ جاری ہی نہیں کیا تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کر دیا۔
دوسری جانب صدر کے الیکشن کی تاریخ دینے پار اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کے اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا ہی نہیں تھا تو صدر نے 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔
وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر نے نے کہا کہ آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے تحریک انصاف میں میں درخواست جمع کروائی ہے ہے بتایا جائے کہ 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا گیا۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آرڈر 22 مارچ کی شام کو جاری کیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے کاغذات نامزدگی جمع ہو چکی تھی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا یا کے الیکشن کمیشن نے فوج، رینجر اور ایف سی کو خطوط لکھے جس نے ان کو بتایا گیا یا کہ فوج فل حال کسی بھی کام کے لیے اپنی جوان دینے سے معذرت کر لی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا آیا کہ ایجنسیوں کی طرف سے رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ چند کالعدم ٹی ٹی پی تنظیمیں پاکستان کے حالات کو خراب کرنا چاہتی ہیں اگر عدالت کا حکم ہوا تو ہم وہ رپورٹ بھی عدالت کے سامنے پیش کر دیں گے۔
عطا اللہ تعالی نے میں نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو کو مخاطب کیا اور بتایا کہ کیا آپ آٹھ فروری کے خط پر انہثار کر رہے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے فرمایا کہ عدالت نے یہ فیصلہ یکم مارچ کو دیا تھا تو کیا آپ کو اس سے پہلے فروری میں یہ پتہ تھا کہ اکتوبر میں الیکشن ہو جائیں گے۔
دوسری جانب چیف جسٹس منیب اختصرنے کہا کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ ہم عدالت کے فیصلے سے روگردانی نہیں کر سکتے اور دوسری طرف آپ نے الیکشن اکتوبر میں کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے بتایا کہ سوال اس کے علاوہ اور بھی بہت ہے لیکن پہلے آپ جسٹس منیب اختر کے سوالوں کو غور سے سنیں اور ان کا جواب دیں اس کے بعد مزید سوالات کے جوابات بھی آپ کو دینے پڑیں گے۔۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے استفسار کرتے ہوئے بتایا کہ کہ تاریخ اخفر کرنے کے بعد بعد الیکشن کا شیڈول جاری کیا گیا تھا اور الیکشن کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی تھی لیکن اس کے بعد ایجنسیوں کی طرف سے تھریٹس مل رہی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے شیڈول کو تبدیل کردیا جبکہ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بالاتر ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آج الیکشن کمیشن کے وکیل میں اچھی تیاری کر رکھی ہے ہے دوسری جانب چیف جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بھری عدالت میں پانچ ججز نے فیصلہ پڑھ کر سنایا اور پھر اس پر دستخط کیے۔
جسٹس جمال مندوخیل کھیل میں میں عدالت میں مخاطب ہوکر بتایا یا یا کہ کہ مختصر حکم نامے میں واضح لکھا گیا تھا کہ کہ اس حکم نامے میں اختلافی موجود ہے ہے اور اس اختلافی نوٹ میں بھی یہ واضح کیا گیا تھا کہ جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں تو کیا ان دو ججز جسٹس یہیا آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جو معاملہ ہمارے جمبر کا ہے اس کو ہمارے تک ہی محدود کیا جائے اس پر مزید دلائل اٹارنی جرنل دیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا چار اورتین کے فیصلے پر کیا موقف ہے تو اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ابھی تک الیکشن کمیشن سے اس بارے میں کوئی رائے نہیں لی گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مزید واضح کیا کہ 3 مارچ کو جب عدالتی فیصلہ الیکشن کمیشن کو موصول ہوا تو الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پرمن و عن عمل کیا اور جب صدر کی طرف سے 30 اپریل کی تاریخ جاری کی گئی تو الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو؟ الیکشن کمیشن
چیف جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا بھی تھا یا نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ جی ہاں ہم نے وہ حکم نامہ دیکھا تھا اور بتایا کہ ممکن ہے کہ ہم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔
تو اس بار چیف جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو کہا کہ کیا آپ نے اس مختصر سے حکم نامے میں یہ دیکھا تھا کہ کہ عدالت کا فیصلہ تین چار سے تھا؟ اور جج صاحب کا اپنا موقف ہوتا ہے اور جج کی اپنی رائے ہوتی ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ کسی اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلے پر ترجیح دی جائے
کس حکم نامے کے تحت الیکشن کمیشن میرے فیصلے پر عملدرآمد کیا؟
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے اس حکم نامے کے تحت فیصلے پر عمل کیا؟
روسٹرم پر کھڑے ہو کر الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ جاری کی تھی عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا تھا کہ یہ فیصلہ تین اور دو سے آیا ہے اور اس فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط موجود ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کے پیراگراف نمبر 14 اور ابتدائی چند لائنوں کو پڑھ کر اس پر عمل کیا۔
جب آرڈر آف دا کورٹ ہی نہیں ملا تو الیکشن کمیشن میں شیڈول کیسے جاری کردیا؟ عدالت کا سوال
حکومتی وکیل نے عدالت سے استفسار کیا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ تشکیل دیا جائے اس پر چیف جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کیوں، وہی 7 جز کو بیٹھنا چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل کے بیان پر حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استفسار کیا کہ پہلے یہ واضح کیا جائے کہ فیصلہ تین، چار کا تھا یا 3/2 کا تھا۔ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو بتایا کہ آپ کی جو بھی گزارشات ہے آپ ہمیں تحریری طور پر لکھ کر عدالت میں جمع کرائے تو فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں بتایا کہ اس لئے ہم نے پارٹی بننے کی درخواست جمع کرائی ہے کہ ہمیں بھی اس کیس میں فریق بنایا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کیا اور بتایا کہ آپ اپنا موقف لکھ کر جمع کرائیں ہم آپ کو بھی سن لیں گے۔ اس پر فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ عدالت اپنے اختیارات کے طور پر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ آپ جس نقطہ کی بات کر رہے ہیں اس نکتے کی بات اختیارات کا ہے ہی نہیں لہذا آپ درخواست جمع کرائیں تو فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ہم خواست جمع کرانے جاتے ہیں ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک کو بتایا کہ آپ درخواست جمع کرائیں ہم رجسٹرار آفس کو پیغام دے دیتے ہیں ہیں کہ وہ آپ کی درخواست کو قابل سماعت قرار دے دے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس یہ تھے کہ جن 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواست کو خارج کیا ہمارا موقف یہ ہے کہ فیصلہ اس حساب سے 4 ججز کا ہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ آج تک چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے آرڈر آف کورٹ جاری کیا ہی نہیں ہے تو اس حساب سے صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ کیسے دے دیں۔
تین چار سے درخواست مسترد
چیف جسٹس جمال مندوخیل نے عدالت میں فاروق ایچ نائیک اور الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کیا اور کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے نام سے منسوب کچھ دن پہلے خبریں چلائی گئی انہوں نے کہا کہ میں آج بھی اپنے عدالتی فیصلے پر قائم ہوں اور یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے اسی لیے لہذا ہم نے ازخود نوٹس پر درخواست 3،4 چار سے مسترد کی تھی۔
جب فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو بتایا کہ ہم پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرڈر کے بغیر عمل کیسے کر لیا۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چلیں اب آپ کی وضاحت آ گئی ہے تو اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ نہیں ابھی میں نے اور باتیں بھی کرنی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کیا کہ فیصلہ 4 کا تھا 3 کا نہیں تو اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا بالکل فیصلہ چار کا ہی مانا جاتا ہے اس لیے الیکشن کے لیے فیصلہ 4 ججز کا ہی برقرار رہے گا۔
شروع میں ہی چیف جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت کر دی تھی کہ فیصلہ چار کا آیا تھا تین ججز کا نہیں اس لیے جب فیصلہ 3/2 کا تھا ہی نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیسے کردیا۔
رانا ثناء اللہ نے ٹی وی رپورٹر کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کا یہ معاملہ ان کا اندرونی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ایک طرف ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ فیصلا 3/2 کا تھا اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ نہیں فیصلہ 4/3 کا آیا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ اس ابہام کو دور کرنے کے لئے فل کورٹ بنایا جائے۔
رانا ثناء اللہ نے بدھ کی شام اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے بتایا کہ انتخابات کی تاریخ پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کو فل کورٹ کی طرف لے جایا جائے تو یہ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو سکتا ہے۔
“الیکشن سے بھاگنے کے لیے عدلیہ پر پریشر ڈالا جارہا ہے “عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن سے بھاگنے کے لیے پی ڈی ام عدلیہ پر پریشر ڈال رہی ہے ان کا کہنا تھا کہ مجھے ان کی نیت پر ہمیشہ سے شک رہا ہے یہی لوگ پاکستان میں عدلیہ اور قانون کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔
عمران خان نے نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کوئٹہ کے بینچ کو خریدا۔ یہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے نے سپریم کورٹ کے جج پر حملہ آور ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے نے عوام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ شہباز شریف نے نے ہنگامی طور پر اجلاس کو بلایا اور اس میں بتایا کے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیا جائے۔ شہباز شریف کے جلدی جلدی میں جو بھی فیصلہ کیا اس کا سراسر مقصد صرف عدلیہ پر دباؤ ڈالا تھا۔